اللہ کا کرم Allah Ka Karam > Sabir Adeeb - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

اللہ کا کرم Allah Ka Karam > Sabir Adeeb


صابر ؔادیب

35,''GULKADA''Opp,KacciMasjid
Shahjhanabad,Bhopal

             اللہ کا کرم


طالب ان لوگوں میں سے تھا جن کی زندگی کی گاڑی ایک سیدھی ڈگر پر معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے۔نہ ان پر کسی خوشی کا اثر ہوتا ہے نہ غم کا، بس وہ اپنے پروردگار کے رحم و کرم پر جیتے رہتے ہیں،جس حال میں وہ رکھتا ہے، رہتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی معاملہ ان کا اپنا نہیں ہوتا ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے سب ان کے خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔وہ اس پر صابر و شاکررہتے ہیں ۔اپنے خالق…اپنے اللہ کے لئے بشر کا یہی عقیدہ ہونا چاہئے،اگر طالب بھی اسی عقیدہ کا معتقد تھا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔
طالب ایک مفلس قلاش اور ناتواں سا انسان تھا۔اس کا نام طالب ضرور تھا لیکن اس نے کبھی کسی چیز کی طلب نہیں کی۔محنت مزدوری اور جفا کشی اس کا شیوہ تھا۔اپنی محنت اور جفا کشی سے دن بھر جو کچھ وہ کماتا اس ے نہ تو وہ جوا کھیلتا تھا ‘ نہ شراب پیتا تھا اور نہ کوئی غلط کام کرتا تھا۔ بس اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ لیکن ہاں وہ لاٹری کا یک ٹکٹ لینا کبھی نہ بھولتا تھا۔کیونکہ لاٹری کے اس ایک ٹکٹ سے وہ خوابوں کی دنیا کا بادشاہ بن جاتا تھا۔چونکہ خوابوں کی دنیا میں کسی اور کی حکومت نہیں ہوتی ،کسی دوسرے کا حکم نہیں چلتا، اس لئے وہ خواب بھی خوب دیکھتا تھا۔طالب جیسے لوگوں کی بس یہی تو ایک ایسی دنیا ہو تی ہے جس پر اُن کی حکومت ہوتی ہے،اُن کا اپنا حکم چلتا ہے ،وہ ہر طرح سے آزاد ہوتے ہیں۔اگر اُن کی یہ آزادی بھی چھین لی جائے تو وہ جیتے جی مر جائیں ،کیونکہ وہ اپنی اس دنیا کے بیک وقت ہیرو بھی ہوتے ہیں اور ویلن بھی۔اس طرح وہ اپنی دنیا میں سب کچھ ہوتے ہیں۔ہر طرح کا کردار ادا کرتے ہیں۔
لاکھ بندہ اپنے خالق…اپنے پروردگار کی مرضی پر شاکر رہتا ہے اور صبر و استقلال کے ساتھ اس کی مشیت پر بھی قائم رہتا ہے …لیکن جب خوشی یا غم اپنی حد سے تجاوز کر جاتا ہے تواس کے ضبط کا باندھ ٹوٹ جاتا ہے اوروہ اس حالت میں ایسی ایسی حرکتیں کرنے لگتا جنھیں دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی…!
بات یہ تھی کہ طالب نے حسب معمول لاٹری کا ٹکٹ خریدا تھا ،دوسرے دن جب وہ لاٹری اسٹور پہنچا تواسٹور کے مالک گوکل چند نے اُسے دیکھتے ہی خوش ہوتے ہوئے کہا :

’’طالب چا چا!تمھارے نام پورے پانچ ہزار کا انعام نکلا ہے۔انعام کی رقم کل آکر لے جانا۔‘‘
طالب کے لئے یہ خوش خبری ناقابل برداشت تھی ۔وہ خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ دوکان پر کھڑے اور سڑک پر چلتے لوگ حیرت سے اُسے دیکھنے لگے ۔حیرت کی بات بھی تھی کہ ساٹھ سال کا بوڑھا اچانک اچھلنے کودنے لگے تو لوگوں کو حیرت تو ہوگی ہی…لیکن طالب اپنے گرد وپیش سے بے خبر یوں ہی اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہا۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ اپنے کو قابو میں رکھنے کی کوشش تو کر رہا تھا لیکن اس کے لئے یہ خوشی ایسی تھی کہ وہ خودکو سنبھال نہیں پا رہا تھا۔
خوشی کی اس کیفیت میں اچانک اسے اپنی بیوی رضیہ کی یاد آگئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس کی بیوی رضیہ کئی برسوں سے بستر پر پڑی تھی۔اس کا علاج چل رہا تھا وہ دمہ کی مریضہ تھی۔ طالب اپنے بس بھر اس کا علاج کرارہا تھا۔ سرکاری اسپتال سے جیسی بھی اور جو کچھ بھی دوا ملتی تھی وہ لاکر رضیہ کو برابر کھلا رہا تھا۔ پرائیوٹ علاج کرانا اس کے بس میں نہ تھا۔اس لئے سرکاری علاج پر ہی اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔جب تکلیف زیادہ بڑھ جاتی تووہ حکیم کی دوا بھی لاکر دے دیتا تھا۔حکیم جی کے کہنے پر کبھی پانچ بادام بھی دودھ کے ساتھ رضیہ کو پلایا کرتا تھا۔لیکن رضیہ کی حالت جیسی تھی ویسی ہی تھی بس بستر پر پڑی کھانستی رہتی تھی۔حالانکہ رضیہ کی یہ حالت طالب کے لئے مسلسل تکلیف کا باعث تھی لیکن وہ کرتا بھی تو کیا کرتا…! 
طالب نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے آپ کو زندگی کے ایسے کٹگھرے میں پایا تھاجس کو غریبی کہتے ہیں۔وہ شہر کی ایک غریب اور گندی بستی میںبوسیدہ سے مکان میں اپنی بیوی رضیہ اور جوان بیٹی شہلا کے ساتھ رہتا تھا ۔بیٹی کی شادی کی بات تقریباً طے تھی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ادھر بیوی بیمار تھی اور کئی برس سے بستر سنبھالے ہوئے تھی۔تینوں نفوس اینٹ مٹی کے گارے سے بنے بوسیدہ سے مکان میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے تھے۔
طالب کو مکان بھی ٹھیک کرانے کی فکر تھی۔بارش کے دن تھے،بارش میں مکان گرنے کا اندیشہ بھی لاحق تھا،بیوی کی لمبی اور جان لیوا بیماری،بیٹی کی شادی اور گرتے ہوئے مکان کی مرمت…ان سب نے طالب کو اتنا پریشان کیا کہ وہ 
آرہا تھا کہ اولّیت کی بنیاد پر کون سا کام کرے۔
لاٹری اسٹور سے لوٹتے ہوئے سُنار کی ایک دوکان پر اچانک طالب کے پیروں میں بریک لگ گئے ۔کانوں کی خوبصورت بالیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا جب اسے بیٹی شہلا پہنے گی تو کتنی اچھی لگے گی۔ اس نے دوکان دار سے پوچھا:
’’یہ بالیاں کتنے کی ہیں؟‘‘
دوکاندار سے اسے گھورتے ہوئے کہا ’’تم اسے خریدوگے کہ بس یوں ہی پوچھ رہے ہو ۔تین ہزار کی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پھر لوں گا ‘‘۔کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔سامنے ہی کپڑے کی دوکان تھی ،وہ دوکان مین گھس گیا۔اسے اپنی اس جرأت پر حیرت ہوئی ۔ اس کے پہلے اس نے کبھی اتنی بڑی دوکان میں گھسنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ ایک کپڑے کو دیکھ کر اس نے دوکاندار سے اس کا بھاؤ پوچھا۔دوکاندار نے ایک نظر اس کے حالت پر ڈالی اور بولاْ
’’یہ کپڑا تمھارے بس کا نہیں ہے …جاؤ بھائی کہیں اور جاؤ…‘‘
وہ دوکاندار کو گھورتا ہوا چپ چاپ دوکان سے باہر نکل آیا۔کچھ دور چلا تھا کہ سیمنٹ کی دوکان نظر آگئی۔اسے اپنا مکان یاد آیا۔ایک لمحہ رُک کر اُس نے سیمنٹ کا بھاؤ پوچھااور پھر آگے بڑھ گیا۔
ان پانچ ہزار روپے کے سہارے طالب جو کچھ سوچ سکتا تھا سوچا اور فی الحال جو کچھ بھی کرسکتا تھا کیا۔اب وہ اطمینان سے چل رہا تھا۔ سڑک کے ایک طرف ہوکر اس نے جیب سے ایک سستی سگریٹ نکالی اور ماچس ٹٹولنے لگا۔ماچس نہ ملنے پر پاس سے گزرتے ہوئے ایک منخنی شخص سے ماچس مانگ کر سگریٹ سلگائی اور اس طرح کش لینے لگا کبھی جوانی میں اپنی بیوی رضیہ کے سامنے لگایا کرتا تھا۔سگریٹ کے ایک ہی کش نے اُسے فکروں کی دنیاس سے نکال کرخوشی کی اس دنیا میں لا پھینکا جس سے ابھی وہ دوچار ہواتھا ۔اور پھر وہ خوشی میں جھومتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچ کر اس نے جب یہ خبر اپنی بیوی کو سُنائی تو وہ خوشی میں سرشار کھانستی ہوئی بستر پر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔پاس ہی بیٹھی بیٹی کا چہرہ چمک اُٹھا۔اسے امید ہوگئی کہ اب اس کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ وہ خوشی کے مارے اپنے باپ سے لپٹ گئی۔
جب رضیہ کا دم قابو میں آیا تو اس نے طالب سے بہت سوال کر ڈالے اور طالب اس کے ایک ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بولا ۔
’’اللہ کا کرم ہوگیا ہے تو اب بیٹی کا رشتہ بھی کر دوں گا۔کیا معلوم پھر اتنا اچھا داماد ملے کہ نہیں‘‘۔
’’وہ تو ٹھیک ہے‘‘رضیہ بولی۔’’مکان بھی گر رہا ہے اس طرف بھی دھیان دینا ہے‘‘۔ 
’’ہاں اس کی بھی فکر ہے ‘‘۔طالب بولا’’پھر ابھی تم کو بھی کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا ہے‘‘۔
’’ارے میری فکر مت کرو۔میں تو بس ٹھیک ہوں ۔ہاں بیٹی کا گھر بس جائے مکان ٹھیک ہو جائے‘یہی بہت ہے‘‘۔رضیہ نے سانس کی تکلیف سے کراہتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یہ تو صحیح ہے‘‘۔طالب جواب دیتے ہوئے فرش پر آرام سے ایک طرف بیٹھ گیا۔
اس رات طالب ،رضیہ اور شہلا نے اپنے اپنے طور پر نہ جانے کیا کیا خواب دیکھ ڈالے اور صبح ہو گئی۔
صبح ہوئی تو سب اپنی اپنی ضروریات میں لگ گئے۔آج صبح ہی سے  ہوائیںتیز چل رہی تھیں ۔
طالب بھی اُٹھا اور اور جلدی جلدی اپنی حاجتوں سے فارغ ہونے لگا۔ کیونکہ آج اسے اپنے انعام کی رقم لینے جانا تھا۔
شہلا نے اس کے لئے گھر میں جو کچھ بھی تھا ناشتہ لا کر دیا۔سب ہی نے ہنسی خوشی مل بانٹ کر ناشتہ کیا۔پھر طالب نے نئی امنگوں اور نئی خوشی کے ساتھ اپنے انعام کی رقم لینے لاٹری اسٹور چل پڑاْاچھلتے ہوئے ایک جست میں اس نے سڑک پار کی اور سڑک پار کرتے ہوئے وہ ایک ٹیکسی سے ٹکڑاتے ٹکراتے حیرت انگیز طور بچا۔ راہ گیر حیرت سے دیکھنے لگے لیکن طالب کو کسی بات کی فکر نہیں تھی وہ تو  بوڑھے بندر کی طرح قلابازیاں لگا تا ہوااپنا سفر طے کر رہا تھا ۔اس عالم میں وہ کب لاٹری اسٹور پہنچ گیا اسے معلوم ہی نہیں ہوا بس یہ ہوا کہ خود کو اس نے اسٹور کے سامنے کھڑا پایا۔
اسٹور کے مالک گوکل چند کی جیسے نظر پڑی ،وہ بولا…
’’آگئے طالب چاچا!تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا ،میں نے روپے منگوا لئے ہیں،یہ لو ۔اس نے میز کی دراز سے پانچ ہزار کی ایک گڈی نکال کر طالب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
طالب نے کبھی اتنے روپے نہیں دیکھے تھے۔اس نے آنکھ بھر انھیںدیکھا اور دیکھتا ہی رہا۔
گوکل چند نے اسے اس طرح روپیہ کو گھورتے ہوئے دیکھا تو بولا…
’’اچھا چا چا! یہ تو بتاؤ تم اتنے روپیوں کا کروگے کیا…‘‘؟ 
’’کیا بتاؤں بھائی میری بیٹی کی شادی ہے ۔پانچ ہزار کا خرچ ہے دوسری طرف مکان گر رہا ہے بارش کے دن ہیں ادھر بیوی بیمار ہے۔کیا کروں کیا نہ کروںسوچ سوچ کے پریشان ہوں۔تم ہی کچھ بتاؤ…‘‘
’’میں کیا بتاؤں چاچا،یہ تو تمھارا معاملہ ہے تم ہی سوچ لو‘‘گوکل چند بولا’’روپے ٹھیک سے رکھ لو چاچا‘‘۔
طالب نے روپے لئے اور اپنے میلے سے تھیلے میں رکھتے ہوئے اسٹور سے واپس لوٹ پڑا۔ اور پھر اس کے خیالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا…بیوی کا علاج کرائے…بیٹی کی شادی کرے…یا خستہ مکان ٹھیک کرائے۔!!!کہیں مکان گر گیا تو بیٹی کو کہاں لئے پھروں گا۔مکان ٹھیک کراتاہوں تو بیٹی بغیر شادی کے رہ جاتی ہے ۔بیوی کا علاج بھی کرانا ضروری ہے کہیں چل بسی تو سب دھرا رہ جائے گا۔وہ سوچتا رہا اور چلتا رہا۔۔۔۔۔۔چلتا رہا اور سوچتا رہا۔۔۔۔۔۔کبھی بیوی۔۔۔۔۔کبھی بیٹی۔۔۔۔۔کبھی مکان۔۔۔۔۔کبھی خستہ مکان۔۔۔۔۔۔کبھی بیمار بیوی۔۔۔۔۔۔اور کبھی بیٹی کی شادی۔۔۔۔ !! وہ بس سوچتا رہا اور چلتا رہا۔ اسی اُدھڑ بُن میں وہ کب اپنے گھر پہنچ گیا اسے پتہ ہی نہ چلا ۔
گھر کے پاس غل غپاڑے اور شور شرابے کو سن کر وہ اپنی محویت سے چونک پڑا ۔اس نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا ۔اپنے گھر کے سامنے بھیڑ دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔اس کے ہاتھ سے تھیلا چھوٹ گیا۔اس نے دیکھا۔۔۔۔۔اس کا گھر ،اس کا مکان، مٹی کا ڈھیر ہو چکا ہے۔۔۔۔۔پاس ہی کھڑا پڑوسی کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔بے چارے طالب چا چا کے ساتھ بڑا ظلم ہوا گھر تو گر ہی گیا پر افسوس بے چارے چا چا کی بیوی اور بیٹی بھی ملبے میں دب کر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
طالب نے اتنا سنا تھا کہ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا ،سب اس کی طرف دوڑ پڑے۔
ہوا تیز چل رہی تھی دور پڑے تھیلے سے انعام کے نوٹوں کی گڈی نکل کر باہر پڑی منہ چڑھا رہی تھی۔ خدا جانے کس کو۔۔۔۔۔۔؟
طالب کو۔۔۔۔۔یا اُن رشتوں کو جو طالب سے ٹوٹ چکے تھے۔۔۔۔۔ !

No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"