کتاب کا نام۔گلِ سر سبد (شعری مجموعہ) شاعر۔غلام مرتضیٰ راہی مبصر ۔عبد المتین جامیؔ - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

کتاب کا نام۔گلِ سر سبد (شعری مجموعہ) شاعر۔غلام مرتضیٰ راہی مبصر ۔عبد المتین جامیؔ

کتاب کا نام۔گلِ سر سبد   (شعری مجموعہ)
شاعر۔غلام مرتضیٰ راہی مبصر ۔عبد المتین جامیؔ

’’گل سرسبد‘‘ کہنہ مشق استاد شاعر جناب غلام مرتضیٰ راہیؔ کا آٹھواں شعری مجموعہ ہے۔قبل ازیں موصوف کے چھ شعری مجموعہ (اردو) اور ایک ہندی غزلوں کا مجموعہ بنام’’سدا بہار غزل‘‘ شائع ہو کر اربابِ ذوق سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ان کی منتخب غزلوں کی ایک کلیات بھی قبل ازیں شائع ہو چکی ہے۔اس کے علاوہ موصوف کے حیات اور کارناموں پر مبنی دو کتابیں’’حرف باریاب، راہیؔ کی غزل کا تنقیدی جائزہ۔(مصنف عشرت ظفر یاب)کلامِ راہی اور صنائع و بدائع(مصنف محمد ادریس رضوی ایم اے)شایع ہوکر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ڈاکٹر حسن نظامی غلام مرتضیٰ راہی کے حیات اور کارناموں کے موضوع پر تحقیقی مقالہ داخل کرکے P.H.Dکی ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ بھی ہند و پاک کے کئی مشہور ادبی رسائل ان کے مبسوط گوشے شائع ہو چکے ہیں۔ بہاراوراتر پردیش اردو اکاڈمیوںنے ان کی کتابوں پر انعام و اکرام سے نوازا ہے۔حتیٰ کہ مختلف اداروں کی طرف سے انعام و اعزاز حاصل کرنے کے علاوہ آل انڈیا میر اکاڈمی’’امتیازِ میر‘‘ ایوارڈ سے بھی موصو ف منوایے جاچکے ہیں۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ صاحب نے اس زمانے میں اپنی شاعری کا آغاز کیا جب جدیدیت کا دور دورہ تھا۔لیکن موصوف نے کسی بھی رجحان سے تاثر لیے بغیر اپنی راہ پر چلنے کو ترجیح دی اور یہی انفرادیت ان کا شناخت نامہ بن گئی ۔ان کی شاعری کے منفرد تیور جن کا اعتراف بیشتر مشاہیر ادب کرچکے ہیں۔بقول شمس الرحمٰن فاروقی صاحب ’’جس شاعر کا یہ دعویٰ ہو کہ اکیسویں صدی اسے گلے لگانے کو بے چین ہے۔اُسے اِدھر اُدھر کے نقادوں اوررائے دہندوں کی ضرورت نہیں۔ خصوصاً اس صورت حال میں کہ لوگ ابھی غلام مرتضیٰ راہیؔ کے کلام کے ابعاداور اس کے اعماق تک پہنچ سکے ہیں۔یہ کہنا کافی نہیں کہ غلام مرتضیٰ راہیؔ ہم عصر شاعروں میں اپنے منفرد اسلوب سے فوراً پہچان لئے جاتے ہیں۔شاعر صاحب بصیرت ہوا ور اپنا منفرد ڈکشن رکھتا ہوتو گہرے جمالیاتی تجربے سامنے آتے ہیں‘‘۔
’’گلِ سر سبد‘‘میں بھی راہیؔ صاحب نے اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کی سعئی بلیغ کی ہے۔ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیے:
اب جو آزاد ہوئے تو خیال آیا ہے۔کہ ہمیں قید بھلی تھی سزا کیسی تھی 
ہر زاوئیے سے روشنی مجھ پر پڑی مگر۔سایا ہی میرے چاروں طرف گھومتا رہا
یہی ہے نیند کا منشا کہ خواب غفلت سے ۔صحیح وقت پہ بیدار ہو لیا جائے
عشق میں جس کے نچھاور تھا مرا تن من دھن۔میری گردش کے دن آئے تو وہ محور نکلا
میری پہچان بتانے کا سوال آیا جب۔آئینوں نے بھی حقیقت سے مکرنا چاہا
بادلوں سے نہیں برداشت ہو ا اب کے برس۔فصل کا میری کڑی دھوپ میں پکتے رہنا
ان اشعار سے ٖقاری بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ لب و لہجہ نیز الفاظ کے انتخاب اور پیش کرنے کے انداز میں انفرادیت ہے کہ نہیں۔ ان اشعار شعری بصیرت کے ساتھ ساتھ گہرائی وگیرائی بھی مترشح ہے۔ایسے اشعار دیر پا تاثر قائم کرتے ہیںاور ان کی افادیت ہر عہد میں برقرار رہتی ہے۔
’’گل سر سبد‘‘ کی غزلوں میں بصیرت وبصارت کے جو چراغ روشن ہیںوہ قاری کے ذہن ودل کو ہمیشہ منور کرتے رہیں گے۔مجھے پوری امید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ بھی ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔نفیس کاغذ اور خوبصورت طباعت کے ساتھ اس کی قیمت ہے ۱۷۵؍روپے اور شاعر کا پتہ ہے:
راہی منزل۔۱۳۵؍پنی۔فتح پور۔212601(یو پی)

No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"