کتاب کا نام ابابیل کی ہجرت(افسانوی مجموعہ) مصنف ڈاکٹر شاہد جمیل مبصر۔عبد المتین جامی - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

کتاب کا نام ابابیل کی ہجرت(افسانوی مجموعہ) مصنف ڈاکٹر شاہد جمیل مبصر۔عبد المتین جامی

کتاب کا نام ابابیل کی ہجرت(افسانوی مجموعہ)
مصنف ڈاکٹر شاہد جمیل مبصر۔عبد المتین جامی

ڈاکٹر شاہد جمیل صاحب ہمارے عہد کے معروف ادیب و نقاد نیز افسانہ نگارکہلاتے ہیں۔اب تک ان کی تقریباً نصف درجن کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ’’ابابیل کی ہجرت‘‘ ان کی تازہ ترین پیش کش ہے جس میں صرف انھیں افسانوں کو شامل کیا گیا ہے جو مختلف اوقات میں بر صغیر ہند و پاک کے مختلف رسائل میں گاہے گاہے شائع ہوتے رہے ہیں ۔ اس مجموعے میں مذکورہ افسانوں میں سے صرف پندرہ افسانوں کا انتخاب شامل ہے۔ڈاکٹر موصوف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت ہی خوش اخلاق اور نرم دل واقع ہوئے ہیں جس کا پرتو اہم ان کے افسانوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ان افسانوں میں سلاستِ زبان و بیان کے ساتھ برجستہ جملے قارئین کو چونکا دیتے ہیں۔پلاٹ کے اعتبار سے ان کے افسانے اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ اپنی فکشن نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں’’مشاہدات و تجربات نے جب ذہن ودل کو اکسایا ‘تب میں نے اپنے خیالات ‘جذبات و احساسات اور انسانی نفسیات‘ معاشرے کی عکاسی اور متغیر وقت و انحطاط پذیر اقدار کے اظہار کے وسیلے کے لیے فکشن کا انتخاب کیا۔‘‘
یہ بات بھی حق بجانب ہے کہ عہد رواں میں انسانی نفسیات اورزوال پذیر اقدار نے سنجیدہ لوگوں کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔مکر وفریب کا جال ہرطرف پھیلا ہوا ہے۔آدمی اپنی شناخت بھی کھوچکا ہے۔لوگ چہرے پر چہرہ لگائے گھومتے ہیں۔ایک فن کار ہی ان بدلتے چہروں کو بے نقاب کرسکتا ہے۔انسان کے اندر کی نفسیاتی پیچیدگی کو سامنے لے آنے کی فن کارانہ صلاحیت جس کے اندربدرجۂ اتم موجود ہو وہی فنکار کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شاہد جمیل کا نام لیا جاسکتا ہے جو کہ بیک وقت اچھے نقاد اور محقق و مترجم بھی ہیں۔انھوں نے امراؤ جان ادا: ایک خصوصی مطالعہ‘ گناہ گاروں کے درمیان (افسانوں کا ترجمہ) بنکر کی بیٹی(ہندی سے اردو ترجمہ) شنگرف نامۂ ولایت( سفر نامے کا ہندی ترجمہ) پیر علی شاد عظیم آبادی کے ناول کا ہندی ترجمہ‘صابر ارولی اور خالد رحیم کے منتخب شعری کلام کی ہندی رسم الخط میں ترتیب‘مِردلا بہار ی کے ناول’’ ان کہی‘‘ جیسے شہہ پاروں کو اردو جامہ عطا کرکے اردو کے ادبی سرمایہ میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں بہار اردو اکاڈمی کے علاوہ مزید کئی اداروں نے انعامات و اکرام سے نوازا ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں کسی بھی ادیب یا نقاد کی تقریظ شامل نہیں ہے جو ان کی خوداعتمادی کی روشن دلیل ہے ۔مختصر یہ کہ انھیں اپنے فن پرپورا بھروسا ہے اور یہی ایک اچھے اور بڑے فن کار کی پہچان ہوتی ہے۔
جھارکھنڈ کے ڈاکٹر زاہد انور نے ان کے افسانوں میں سے کوئی ۲۴؍ ایسے اختراعی جملوں کا انتخاب کیا ہے جن سے شاہد جمیل کے طرزِِ فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ جملے قارئین کو نہ صرف چونکاتے ہیں بلکہ فکر کو بھی انگیز کرتے ہیں۔ایسے جملوں کے ذریعہ انھوں نے فلسفۂ حیات کی خوبصورت عکاسی کی ہے  جو دل پر کافی اثر چھوڑ تے ہیں۔  یہاں چند جملے بطورِ نمونہ پیشِ خدمت ہیں:
(۱)مظلوموںکے آنسو رواں نہیں رہتے تو ڈل جھیل کب کا سوکھ چکا ہوتا (۲) دھرتی اور ماں سینے میں جوالا رکھ کر بھی شانت رہتی ہیں (۳) عورت ساز کی طرح سازندے کے بس میں ہوتی ہے( ۴)جوانی سچ مچ سونامی سی ہوتی ہے جس پر قابو پانا آسان نہیں (۵)عورت اور چڑیا دونوں سمان ہوتی ہیں ‘چھوؤ چھیڑو تو بدحواس ہو جاتی ہیں(۶)عورت سمندر سی اتھاہ ہوتی ہے اور سینے میں بہت کچھ چھپائے رکھتی ہے(۷)ٹی وی اور انٹر نیٹ نے بچوں سے بچپن اور ان کی معصومیت چھین کر انھیں بالغ بنا دیا ہے۔
ناچیز نے بس چند ہی فقرں کو اس تبصرے میں شامل کیا ہے ورنہ باقی فقرے بھی دل کو چھو لیتے ہیں۔اس کتاب میں شامل تمام افسانے انسانی زندگی اور اس کے بطون سے جنم لینے والے مختلف مسائل کی گرہ کشائی کرتے نظر آتے ہیں۔ان سب کی تفصیل اس مختصر سے تبصرے میں ممکن نہیں۔ بس اتنا کہوں گا کہ  ڈاکٹر شاہد جمیل فکشن کی دنیا میں بلند مقام پر متمکن ہیں اور افسانہ نگاری میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیںنفیس کاغذ اور عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ اس مجلّد کتاب کو  ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس نے حسن وجمال کا مرقع بناکر پیش کیاہے۔امید ہے کہ  عوام وخواص اس کا خوشدلی سے استقبال کریں گے ۔ ۲۵۰؍ روپیوں میں یہ کتا ب بک امپوریم سبز باغ۔پٹنہ۔۴سے حاصل کی جاسکتی ہے ٭٭٭

No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"