بے راہ رو Be Raah Roo > Dr Kalab Hasan Hazeen - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

بے راہ رو Be Raah Roo > Dr Kalab Hasan Hazeen

ڈاکٹر کلب حسن حزیںؔ 

ٹانڈہ‘امبید کر نگر

بے راہ رو


دلکش اسمِ با مسمیٰ تھی۔اس کا جسم معلوم ہوتا تھا جیسے میدہ اور سیندور کو گوندھ کر بنا یا گیا ہو۔شگوفی اور قاتل ہونٹ جو ہمہ وقت مسکراتے رہتے تھے۔آنکھیں ایسی حسین کہ جس پر اٹھتی اس کو حواس سے بیگانہ کر دیتی تھی۔تیس سال کی عمر میں دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اتنی خوبصورت تھی جتنی دس سال پہلے ۔خد وخال تھوڑے متغیر ہو گئے تھے ‘جسم بھرا بھرا ہو گیا تھا۔ان تبدیلیوں سے اس کی دلکشی میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہو گیا تھا۔
شہر کے سب سے بڑے تاجر قادر مُلّاکی شریک حیات تھی۔وہ بہت مصروف ترین آدمی تھے۔صبح نو بجے گھر سے نکلتے تو رات دس بجے تھکے تھکائے گھر پہنچتے۔کھانا کھاتے ہی محو خواب ہو جاتے۔ان کو اپنی شعلہ جوالہ شریک حیات سے  بھی گفتگو کرنے کی تاب نہیں رہتی تھی۔دلکش دن بھر ٹی وی دیکھ کر اپنے دل کو آسودہ رکھتی تھی۔گھر کی خادمائیں گھر کا کام کاج دیکھتی تھیں۔دلکش کو گھومنے پھرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔اس کو کرکٹ دیکھنے کی دیوانگی تھی۔شہاب دُرّانی کی فین تھی۔شہاب کا جب بھی شہر میں میچ ہوتا وہ ضرور دیکھنے جاتی۔اگر اسے خبر مل جاتی تو دُبئی تک میچ دیکھنے جانے میں نہیںہچکچاتی تھی۔پہلی بار جب شہاب سے ملی تو اس پر سحر ہو گیا۔اس نے دلکش سے کہا تم خوبصورتی کی انتہا ہو۔ تم مجھے کتنی اچھی لگتی ہو  میں بتاہی نہیں سکتا۔میرے پاس الفاظ نہیں ہیںجو تمھارے حسن کا احاطہ کرسکیں۔    زندگی میں بہت سی لڑکیاں میرے قریب آئیں لیکن ان میں کوئی تم جیسی نہیں تھی۔تم میرے دل و دماغ پر مسلط ہو گئی ہو۔ گلہائے جذبات کی قسم تم اسے محبت سمجھو یا جو بھی نام دیدو تمھارے بغیر میری زندگی اجیرن ہے ۔اس کے بعد دلکش کو اپنی باہوں میں اسیر کر لیا۔ اس کے پھول جیسے ہونٹ کو چوم لیا۔
اس کے بعد تو کوئی میچ چھوٹتا نہیں تھا ۔دُبئی‘شارجہ‘سری لنکا حد تو یہ تھی کہ انگلینڈ جانے میں بھی نہیں ہچکچاتی تھی۔ میچ کے بعد شہاب سے گھنٹوں گفتگو کرتی دونوں ایسے مدہوش ہو جاتے کہ ہم آغوش ہونے میں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا۔ اُسے لگتا تھا اب مجھے منزل مل گئی ہے۔دھیرے دھیرے دونوں کے تعلقات کے چرچے زباں زدِ عام ہو گئے۔
شہاب ہمیشہ سے سنجیدہ مزاج تھالیکن دلکش نے اس کے حواس اور خرمن ہوش پر ایسی بجلی گرائی کہ وہ اس کا دیوانہ ہو گیا۔اس کا دل ہر دم دلکش میں لگا رہتا تھا۔اب کی بار جب شارجہ سے لوٹا تو ماں نے کھانے کے میز پر اس کی خاموشی کا سبب پوچھا۔

’’کیا کسی نے تمھاری غیرت کو ٹھیس پہنچائی ہے‘‘۔شہاب نے کہا ۔
’’ماں !ایسی کوئی بات نہیں ہے‘‘۔ بھابھی نے کریدا ’’کیا کوئی لڑکی پسند آگئی ہے؟ کہو تو ہم لوگ اسے ہاتھ جوڑ کر منالیں۔‘‘بڑی بہن نے کہا۔
’’بھیا! تمھارے ہیولے سے صا ف ظاہر ہے کہ کوئی بات ضرور ہے‘ہم لوگ سے نہیں کہو گے تو کس سے کہو گے ؟‘‘شہاب نے کھانے کی میز سے اٹھتے ہوئے کہا ’’تم لوگ مجھے بولنے کا موقع دو تو کچھ کہوں۔ویسے تم لوگوں کے سارے مفروضے غلط ہیں‘‘۔سب سے چھوٹی بہن وصیہ نے کہا ’’کوئی دلکش نام کی لڑکی ان دنوں آپ کے حلقۂ ارادت میں آگئی ہے آپ اس کو اتنا پسند کرتے ہیں کہ میگزین میں فوٹو چھپوا لیا ہے۔‘‘شہاب کچھ بولا نہیں ‘اٹھ کر ڈرائنگ روم چلا گیا۔لیکن یہ سچ تھا کہ اس کا دل دلکش کے فراق میں بے قرار تھا۔اس کے بغیر ہجر کی گھڑیاں جاں گسل ہو رہی تھیں۔
اب کی جب دُبئی میچ کی تاریخ کا اعلان ہوا تو دلکش نے جانے کا ارادہ ظاہر کیا ‘شوہر نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن دیور نے کہا’’بھابی ! آپ کے اور شہاب کے تعلقات کے چرچے گلی گلی میں ہو رہے ہیں۔خدا کے لیے آپ ہم لوگوں کی عزت کا خیال رکھیں ۔دلکش نے اپنے دیور کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’فرید تم کب سے اتنے فرسودہ خیال کے ہو گئے۔ویسے تم جانتے ہو کہ میں رجعت پسند نہیں ہوں اور نہ رہ پاؤں گی۔‘‘کہہ کر دُبئی چلی گئی ۔کھیل ختم ہوا ہندوستان کی ٹیم فاتح ہوئی ‘دلکش خوشی سے جھوم اُٹھی اور شہاب کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور کہا۔
’’اب میں تمھارے بغیر جی نہیں سکتی‘‘۔
شہاب نے کہا۔’’ہم لوگوں کو شادی کرلینی چاہئے‘‘۔
’’خدا کے لیے ایسی باتیں مت کرو میری اور اپنی حیثیت کا فرق سمجھو ‘ میں شادی شدہ ہوں تم کنوارے۔میں سنّی ہوں تم شیعہ ‘شہر میں ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا ‘‘۔بات کرتے کرتے دونوں جذبات کے سیلاب میں ایسے بہے کہ ساری حدیں پار ہو گئیں۔جب چلنے لگے تو شہاب نے مشورہ دیا کہ تم قادر مُلّا سے طلاق لے لو۔دلکش نے کہا ۔
’’مشکل کام ہے۔ وہ آسانی سے طلاق نہیں دے گا۔دوسرے کیا  تمھارے خاندان والے تمھاری شادی ایک طلاق شدہ عورت سے کریں گے‘‘۔اتفاق ہی تھا کہ اس روز قادر مُلّا گھر میں پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے۔دونوں پیاری پیاری بچیاں گود میں تھی ۔غیظ و غضب میں آکر کہا۔
’’تمھاری عادت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔میرا نہیں تو ان پیاری
بچیوں کا تو خیال کرو۔‘‘
’’آپ تو کرتے ہی ہیں میری کیا ضرورت ہے‘‘۔
مُلّا غصے میں آپے سے باہر ہو گئے اور دلکش کو طلاق دیدیا۔
دلکش نے کہا’’ بچوں کو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی‘‘۔
مُلّا نے کہا’’بچیاں میرے ساتھ رہیں گی ‘میں ان پر تمھاری جیسی بد کردار عورت کا سایہ بھی پڑنے نہ دوں گا۔‘‘دلکش نے اپنا بیگ اٹھایا اور اپنے میکے چلی آئی۔اپنی ماں سے اس طرح بیان کیا جیسے کوئی خوش خبری ہو۔عدت کے دن پورے ہونے کے بعد دلکش نے شہاب سے شادی بڑے تزک و اہتمام سے کی ۔اس میں ہندوستان کے بڑے بڑے کریکیٹرس شامل ہوئے۔
دلکش عموماً شہاب کے ساتھ رہتی تھی۔وہ جہاں جاتا وہ بھی وہاں جاتی۔ اس درمیان حاملہ ہو گئی۔ ایک بہت ہی خوبصورت بچی کو جنم دینے کے بعد پھر سے سیر سپاٹے کے لیے روانہ ہو گئی۔بچی کو شہاب کی ماں کے حوالے کردیا۔ایک دن جب شہاب میچ کھیل رہا تھا اس کے ایک ساتھی نے خبردار کیا کہ’’ شہاب پر نظر رکھو ‘وہ آج کل ایک پاکستانی حسینہ کے چنگل میں ہے۔ انگلینڈ کے میچ میں دونوں پھر ملیں گے تم بھی انگلینڈ آؤ اور سارا ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔
منصوبے کے تحت وہ ایک دن لیٹ پہنچی‘رات میں اس ہوٹل میں گئی جہاں شہاب ٹھہرا ہوا تھا ۔اس نے شہاب کا دروازہ تھپتھپایا‘تھوڑی دیر بعد ایک نیم برہنہ لڑکی نے دروازہ کھولا‘اس نے پوچھا۔
’’آپ کون‘‘؟
’’شہاب کی ایک شناسا‘‘
اور دُرّانہ دروازے میں گھس گئی۔دوسرے دن دونوں میں بہت جھگڑا ہوا۔شہاب نے کہا۔
’’یہ میچ فیکسنگ کے لیے روپے لے کر آئی تھی۔ایسے کام کے لیے بیباک لڑکیاں ہی رکھی جاتی ہیں۔اب دلکش شہاب کو کہیں بھی تنہا نہیں جانے دیتی تھی۔اسی درمیان اس کی بچی بیمار ہو گئی ۔وہ مہینوں اس کی تیمارداری میں لگی رہی۔جب پھر شہاب کے ساتھ شارجہ گئی تو معلوم ہوا کہ انیتا نام کی ایک لڑکی سے شہاب کے تعلقات ہیں۔ اب وہ اس کی ٹوہ میں لگی رہتی تھی۔ ایک دن اس نے ان  دونوں کو نا گفتہ بہ حالت میں دیکھ لیا۔دلکش نے شہاب سے بات چیت کا سلسلہ منقطع کردیا۔
’’میں تم جیسے کمینے اور ذلیل آدمی کے ساتھ رہنے سے بہتر مرجانا پسند کرتی ہوں‘‘۔دلکش انیتا سے ملی۔لیکن انیتا نے صاف صاف کہہ دیا کہ شہاب سے میرا کوئی افیئر نہیں ۔دوسرے میں ہندو ہوں اور وہ مسلمان۔لیکن جب شالیہ سے تعلق تصدیق ہو گئی تو اس نے شہاب سے طلاق لے لیا۔ میچ فکسنگ کی خبر میڈیا کو دے دی اس کی تحقیق اب بھی ہو رہی ہے۔
٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"