وہ کھڑکی Wo Khidki > Sayed Qamar Aalam - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

وہ کھڑکی Wo Khidki > Sayed Qamar Aalam

سید قمر عالم 

بلاس پور۔چھتیس گڑھ 

وہ کھڑکی


میں نے بی اے کا فارم پرائیوٹ امتحان کے لیے جبل پور سے بھرا تھا۔والد صاحب نے امتحان سے سات دن قبل ہی اپنے شناسا کے نام خط دے کر مجھے روانہ کردیا۔قدیر صاحب نے اپنے مکان کے بالائی حصہ کا ایک کمرہ مجھے دے دیا۔میں نے کمرے میں پہنچ کر سامان رکھنے کے بعد سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کھولی۔میری نظر سڑک کی دوسری جانب مکان کی کھڑکی سے اندر جا پڑی ۔ سامنے ہی کرسی پر ایک حسین پیکر محو خواب تھا۔ کھلی لمبی سیاہ زلفیںشانوں پر بکھرنے  کے ساتھ فرش پر بھی پھیلی ہوئی تھیں۔یعنی گلابی ہونٹ اور دہکتے ہوئے عارض کم عمری کی غمازی کر رہے تھے۔میں سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے میں ہی کھو گیا کہ اس شوخ کی آنکھ کھل گئی ۔خدا کی پناہ کس قدر گہرائی تھی اُن آنکھوں میں۔ اس سے قبل کہ میں خود کو ہٹاؤں اس کی نظر میری جانب اٹھ گئی اور ایک جست میں ہی وہ غائب ہو گئی۔میں بھی نروس سا ہو گیا پتہ نہیں اُس نے کیا سوچا ہو گا۔تمام ضروریات سے میں فارغ ہو کر باہر نکل گیا۔واپس ہوا تو وہ کھڑکی کھلی ہی ہوئی تھی۔میری نظر اس حسینہ کو تلاش کر رہی تھیں۔کچھ سوچ کر میں بستر کھڑکی کے پاس ہی لگا لیا اور اُسی رُخ بیٹھ کر پڑھنے لگا۔لمحہ بھر کو لگا جیسے کسی نے کھڑکی سے جھانکا ہو لیکن نظر گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ابھی امتحان شروع ہونے میں چھ دن باقی تھے ۔میرا کھانے ناشتے کی غرض سے باہر جانے کے علاوہ کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر پڑھنا ہی کام تھا۔وہ کھڑکی کھلی ہی رہتی اس لیے کہ اکثر اس شوخ کا دیدار ہوتا رہتا ۔کبھی نظر یں بھی چار ہو جاتیں۔اخیر ایک دن نظر ملتے ہی اس کے حسین لبوں پر مسکراہٹ کھل اُٹھی جس سے میرا حوصلہ کچھ بلند ہوا ۔میں نے قدیر صاحب سے سامنے کے مکان کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ جمال صاحب کا ہے جو اُسی کالج میں انگریزی کے پروفیسر ہیں جہاں مجھے امتحان دینے جانا تھا ۔میں نے مزید کچھ پوچھ کر انھیں شک میں مبتلا ہونے کی اجازت نہیں دی۔صبح آنکھ کھلی تو وہ کھڑکی خلاف معمول بند تھی پھر دن بھر بند ہی رہی۔کئی طرح کے خیالات ذہن میں آتے رہے ‘دن بھر بور ہوتا رہا پڑھنا بھی نہیں ہوا جانے کب آنکھ لگ گئی۔ جاگا تو ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔بلب روشن کیا تو بستر پر کوئی گول سی شئے پڑی ہوئی تھی۔اٹھایا تو معلوم ہوا کہ پتھر میں لپٹا ہوا کاغذ ہے۔شاید آنکھ اسی کے گرنے سے کھلی تھی۔بے تابی سے پھیلا یا تحریر تھا’’مسٹر! جس پڑھائی کے لیے آئے ہیں اسی طرف دھیان دیں اب امتحان میں صرف ایک دن باقی ہے ‘اس نئے سبق کے لیے ابھی بہت وقت ہے۔آپ کا پڑھنے سے زیادہ بار بار کھڑکی کی طرف دیکھنا نقصان دہ تھا اس لیے کھڑکی بند کر دی گئی لیکن بند کھڑکی سے بھی نظر گزارنے کی کوشش کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دینا پڑ رہا ہے‘‘۔آخر میں صرف اردو کا ایک حرف’’ر‘‘تحریر تھا ۔مسرور ذہن اس صرف’’ر‘‘ سے شروع ہونے والے کتنے ہی ناموں کی تکرار کرنے لگا۔میں نے بھی ایک کاغذ پر لکھا ’’دادی ماں! تمھارا مشورہ دینے کا شکریہ لیکن نئے سبق کا عنوان ہی روزانہ صرف ایک بار نظر آجانے سے تو یقین ہے کہ میرے سبھی پرچے اچھے بنیں‘‘۔آخر میں صرف ’’ن‘‘ لکھ دیا۔اُسی پتھر میں لپیٹ کر روشن دان سے گزارنے کے لیے مجھے چھت پر جانا پڑا ۔دوسرے دن باہر سے لوٹا تو پھر ایک گولی موجود تھی۔تحریر تھا’’مسٹر ’’ن‘‘ یہ گولہ باری بند کریں آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کاغذ کسی دوسرے کے ہاتھ بھی لگ سکتا تھا۔گھر میں میرے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں۔امتحان ختم ہونے کا انتظار’’ر‘‘۔مجھے بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت ندامت ہوئی ۔پڑھنے میں لگ گیا۔کالج میں پہلے ہی دن پروفیسر جمال کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ پینتالیس کے قریب عمر کی ایک جاذب نظر شخصیت تھی۔اسی شام قدیر صاحب نے میرا تعارف جمال صاحب سے کرا یا۔پھر کالج میں اکثر ملاقات ہوتی رہی وہ برابر جانے والے پرچوں اور تیاری سے متعلق پوچھتے ۔گفتگو کے انداز سے خوش مزاجی عیاں تھی جس دن میں آخری پرچہ دے کر نکلا تو وہ کالج کے باہر ہی مل گئے ۔میرے واپس جانے کے متعلق پوچھا ‘میں نے ان کو بتایا کہ میں رات کی گاڑی سے جانے والا تھا لیکن قدیر صاحب نے رات کا کھا نا ساتھ کھانے کے لیے روک لیا ہے‘اب صبح کی گاڑی پکڑوں گا ۔سنتے ہی انھوں نے شفقت سے کہا ’’میاں ! کل اتوار ہے میری بھی چھٹی ہے اب دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ۔میں انکار نہ کر سکا ادھر دل میں شبہات سر اٹھا رہے تھے ۔اپنے کمرے میں پہنچا تو وہ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ سامنے کرسی پر وہی حسین پیکر مو جود تھا۔اس کی نظر شاید میری کھڑکی پر ہی مرکوز تھی۔نظر ملتے ہی بے اختیار میرا ہاتھ سلام کے لیے اٹھ گیا جس کا مسکرا کر جواب دیا گیا۔پھر ہم خاموش نظروں سے ہم ایک دوسرے کو کن انکھیوں میں دیکھتے رہے۔وہ کسی کی آواز ہی تھی جس پر وہ اٹھی اور کسی طرف چلی گئی۔صبح میں کچھ دیر سے اٹھا ‘عادت کے

مطابق نظر کھڑکی سے گزر گئی ۔اپنی کھڑکی کے قریب کھڑی اس نے کافر ادا سے سلام کیا اور جواب پاکر ہاتھ کو اپنے منہ کے قریب لے جاکر مجھے آنے کا شارہ کیا۔مجھے یہ سمجھنے مین دیر نہ لگی کہ دعوت کی یاد دلائی جا رہی ہے۔میں نے اشارے سے شکریہ ادا کرتے ہوئے آنے کا وعدہ کیا ‘وہ چلتی بنی۔
وقت کے مطابق میں وقت سے کچھ قبل ہی جا پہنچا ۔پروفیسر جمال شاید میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔مجھے لینے دروازے تک خود ہی آئے اور لیے ہوئے ایک آراستہ کمرے میں آگئے۔گھر کیا تھا جنت کا نمونہ تھا۔کمپاؤنڈ سے لے کر سائبان تک رنگ برنگے پھولوں کے گملے بھی جھولتے ہوئے تو کہیں زمین پر رکھے ہوئے تھے۔کمرے کی سجاوٹ میں بھی نفاست کا دخل تھا۔پروفیسر نے مختصر سی گفتگو کے بعد آواز لگائی ’’ارے بھئی رضیہ!کھانے میں کتنی دیر ہے۔‘‘مترنم آواز میں جوا ب آیا ’’لگایا جا رہا ہے‘‘۔اس طرح ’’ر‘‘ کا معمہ حل ہو چکا تھا ۔کچھ دیر میں رضیہ گلابی غرارے جمپر میں ملبوس ایک سات سالہ بچی کو اُنگلی پکڑائے بے نیازی سے آتی نظر آئی۔شوخ آنکھوں میں مسکراہٹ کے دئیے جل رہے تھے۔میں بے خود ہو کر اس طرف دیکھتا رہا ۔پروفیسر جمال کی اس طرف پیٹھ تھی ۔اس لیے بچی کے آکر گلے میں جھول جانے کے بعد ہی انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور اٹھتے ہوئے بولے’’رضیہ ان سے ملو یہ ہیں مسٹر نسیم الغنی ‘پھر رضیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور یہ ہیں میری شریکِ رضیہ جمال ‘‘۔رضیہ کے بڑھے ہوئے ہاتھ میں نے نہ جانے کیسے ہاتھ بڑھایا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔رضیہ نے گرم جوشی سے میرے ہاتھ کو دبا کر میرے جاتے ہو ئے حواس کو قابومیں رکھنے میں مدد کی ۔میں نے خود کو سنبھالا اور پروفیسر کے یہ کہنے پر کہ یہ میری بیٹی ہے شکیبہ۔میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کرنے لگا۔پھر یہ چھوٹا سا کارواں ڈرائینگ روم تک پہنچا۔کھانا میں کس طرح سے کھایا یاد نہیں ۔میں نے اپنی بائیں جانب شکیبہ کو بٹھا یا تھا اور دوسری طرف رضیہ اور پروفیسر تھے۔رضیہ سے نظر ملانے کی میری ہمت نہیں ہورہی تھی ۔رضیہ زیر لب بیچ بیچ  میںمسکرا تے جارہی تھی۔دونوں میاں بیوی میری ہی پلیٹ کے پیچھے پڑے تھے۔بڑی مشکلوں اُن لوگوں کی دریا دلی کو روکنے میں کامیاب ہوا۔ہم لوگ پھر اسی کمرے میں آگئے ۔میں جلد سے جلد نکل بھاگنا چاہتا تھا۔لیکن کافی پینے تک لیکن کافی تک رکنا ہی پڑا۔دروازے تک چھوڑ نے وہ تینوں ہی آئے اور بھی جبل پور آنے سے ضرور ملنے کو کہا گیا۔دروازے سے نکلتے ہی مجھے رضیہ اور جمال صاحب کی ملی جلی ہنسی کی آواز آئی۔اور مجھے ایسا لگا جیسے کسی سزا کے بعد قید سے رہائی ملی۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"