نامِ کتاب۔شکستہ سازٍٍٍٍٍ (شاعری) مصنف۔عباس عراقی مبصر۔عبد المتین جامی - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

نامِ کتاب۔شکستہ سازٍٍٍٍٍ (شاعری) مصنف۔عباس عراقی مبصر۔عبد المتین جامی

نامِ کتاب۔شکستہ سازٍٍٍٍٍ            (شاعری)
              مصنف۔عباس عراقی مبصر۔عبد المتین جامی

عباس عراقی کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے سید وجیہہ احمد اندرابی رقم کرتے ہیں کہ ’’عباس صاحب فطری طور پر ایک ایسے شاعر تھے جو جنھوں نے نہ تو کسی کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور نہ کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔لیکن علماء کی صحبت نے ان کو ایک مکمل شاعر بنا دیا انھوں نے عراق کے سفر کے علاوہ بر صغیر کے ہی مختلف بڑے شہروں کے اسفار کئے۔زبان و بیان پر ان کو مکمل عبور حاصل تھا ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا گمان نہیں گزرتا کہ ان کی تعلیم واجبی سی تھی۔ان کی شاعری میں جو گہرائی و گیرائی پنہاں ہے وہ کسی بھی شعر فہم انسان کو  یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ وہ بہت ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ بہت کم سنی میں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ 
مرحوم عباس عراقی نے ۱۹۸۸ء؁ میں صرف ۵۸؍ سال کی عمر میں انتقال کرتے وقت چند مسوّدے پس انداز کر دئے تھے ‘جنھیں ان کے بھائی حسن ساہو نے ڈاکٹر شعیب رضوی سرینگر کے حوالے کر دئے ۔رضوی صاحب نے بہت ہی سخت انداز سے ان میں سے جن چند غزلوں کا انتخاب کیا وہی’’شکستہ ساز‘‘کے نام سے ہمارے سامنے ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب نے رقم کیا ہے کہ’’ عباس عراقی نے اپنی مختصر سی زندگی میں ایک دو نہیں کئی دیوان جمع کئے اور اگر ان کا انتقال نہ ہوا ہو تا شاید وہ کئی شعری مجموعوںیا پھر دوادین کے شاعر ہوتے‘‘۔خود عباس صاحب کے بھائی حسن ساہونے بھی ان کے تعلق سے لکھا ہے کہ’’ان کو عباس
صاحب کی پانچ بیاضیں حاصل ہوئی تھیں جن میں اردو اور کشمیری زبان میں نغموں غزلوں کے علاوہ رباعیات‘قصیدے‘ نوحے اور نعات درج ہیں‘‘۔
بہر کیف عباس عراقی کے منتخبہ کلام کے چند نمونوں کو ’’شکستہ ساز‘‘ میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ان میں حمد‘نعت‘منقبت‘غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ متفرقات کے عنوان سے ان کے چند متفرق اشعار بھی اس کتاب کی زینت بنے ہیں۔
موصوف کے کلام میں دردِ جہاں کے علاوہ دردِ جاناں کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔بیشتر اشعار میں کلاسیکی رچاؤ پایا جاتا ہے۔اندازِ تحریر میں کلاسیکی اردو اساتذہ کا سا انداز بھی عیاں ہے ۔اشعار کے نمونے ملاحظہ فرمائیے:
ہیں رنگ افشاں گل یہاں‘نالہ بہ بلب بلبل یہاں
تصویر یہ جنت کی ہے انمول ہیں اس کے رتن 
غیر سے رسم و راہ کیوں میں نے سنا دیا کہ یوں۔اس نے پکڑ کے ہاتھ سے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
سامنے آتے نہیں وہ دل سے بھی جاتے نہیں۔ایسے دے رکھا ہے مجھ کو اضطراب ِ درد و غم
ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیے:
جھوٹ کا ہے دور دورہ آج کل۔کاش دل کو چین ملتا ایک پل
میرا مذہب دین و ایماں پریم ہے۔میرے دل کا فیصلہ ہے یہ اٹل
اس میں شک نہیں کہ عباس عراقی ایک فطری شاعر تھے۔انھوں نے زمانۂ قدیم کے اساتذہ شعرا کے کلام کا بھرپور مطالعہ کیا تھا۔درسگاہوں میں ان کی تعلیم واجبی سی تھی اور مطالعہ بھی بہت وسیع نہیں تھا۔موصوف جب تک با حیات رہے یعنی ۱۹۸۸ء؁تک اردو میں ترقی پسند ی اور جدیدیت کا دور دوراہ ختم ہو کر ما بعد جدید دور کا آغاز ہو چکا تھالیکن ان کو کسی بھی تحریک نے متاثر نہیں کیا ۔انھوں نے تا حیات رومانی کلاسیکی شاعری سے خود کو وابستہ رکھا۔تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو زبان و بیان کے علاوہ عروض پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی۔ افسوس ہے کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی وگرنہ ہمیں ان کے کم از کم چار پانچ مجموعۂ کلام یا دیوان سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا۔ اردو کے سنجیدہ قارئین موصوف کے اس مختصر سے مجموعے کا مطالعہ کر کے ان کو خراج عقیدت پیش کرسکتے ہیں۔قیمت ۔۲۰۰؍روپے۔ملنے کا پتہ۔دوران پبلیشرز ،ریڈ کراس روڈ،سرینگر(جموں کشمیر)

No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"