فرشتے
آفس کا کام نپٹا کر میں باہر نکلا توشام کے سات بج گئے تھے۔افطار کرنے کے لیے دس منٹ باقی تھے۔ہمیشہ کی طرح آفس کے قریب مسجد میں روزہ افطارکرکے گھر جانے کا ارادہ تھا۔آفیس کے سامنے ہی ایک رکشہ کھڑا تھا۔ایک باریش بزرگ اس میں بیٹھے ہویے تھے۔انھوں نے رکشہ ڈرائیور کو ڈانٹ کر کہا:
’’جلدی اسٹارٹ کرو۔صرف دس منٹ بچے ہیں‘‘۔
’’میں روزہ دار۔۔۔۔۔‘‘الفاط میرے حلق میں اٹک گئے۔رکشہ میری آنکھوں کے سامنے سے تیزی سے گزر گیا۔مجھے ایسا لگا جیسے زمین میرے ارد گرد گھوم رہی ہے۔میں چکراکر گرنے والا تھا کہ ایک نوجوان نے مجھے سنبھال لیا۔
’’انکل!کیا ہوا‘چکر آگیا؟‘‘اس نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی۔
’’نہیں بیٹے!اب روزہ افطاری میں دس منٹ باقی ہے۔مجھے وہ سامنے والی مسجد تک پہنچا دو‘‘۔اس نے ایک کار والے کو روکااور کار میں بٹھا کر مسجد تک پہنچا دیا۔سامنے ہی وہ بزرگ روزہ افطار کرنے کی تیاری میں بیٹھے تھے۔دو تین نوجوان دوڑتے ہوئے آئے اور مجھے ان کے ساتھ افطار میں شامل کر لیا۔ باریش بزرگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔
جب میں نماز ادا کر کے باہر نکلا تو وہ نوجوان اور وہ کار والا دونوں باہر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ لپک کر میرے پاس آئے،میں لاکھ منع کرتا رہا لیکن انھوں نے مجھے اپنے گھر تک چھوڑنے کی ضد کی۔مجھے اپنے گھر میں پہنچا کر وہ جانے لگے تو میں نے انھیں چائے پینے کے لئے روکنا چاہا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔اس نوجوان نے کہہ’’داداجی! آپ کی وجہ سے ہم دونوں کو ’’پُنیہ‘‘(ثواب)کمانے کا موقع ملا۔ہم دونوں آپ کے ابھاری ہیں‘‘۔وہ دونوں رخصت ہو گئے ۔ان کے جانے کے بعد میری بیوی نے کہا’’آپ نے تو ان دونوں کے نام تک نہیں پوچھے‘‘۔
’’فرشتوں کے کوئی نام نہیں ہوتے‘‘۔میں نے بیوی کو جواب دیا۔
قاضی مشتاق احمد
(پونے)
No comments:
Post a Comment