اقبال سلیم
No:97,Aiwan-e-Tahera
4thMain,8thCross,J.H.B.C.S Layout
J.P.NagarPost.Bangalore-560111
ٹامی
وہ بھی کیا دن تھے کہ جانوروں اور پرندوں کی پرورش ہماری گنگا جمنی تہذیب کا حصہ بنی ہوئی تھی۔کیا گھوڑے‘کیا گدھے‘کیا گائے‘کیا کتے اور کیا کبوتر کیا مرغ ‘سب کی پرورش تہذیب کا درجہ حاصل کرنے کے بعدفنِ بازی گری کی بلندیوں کو چھو چکی تھی۔اب تو ان کے قصے کہانیاں بس کتابوں میں بند ہوکرداستانِ پارینہ بن چکی ہیں۔ویسے بھی گردشِ لیل ونہار کی قطع برید سے گزرنے کے بعد اب بس کتے بلیوں اور کہیں کہیں طوطے مینا کا وجود اس نقشِ کہن کی یاد دلانے کو باقی رہ گیا ہے۔خود ہمارے یہاں یہ حال ہے کہ کبھی کبھار ایک مرغایا مرغی یا زیادہ سے زیادہ ایک بلی ایک محدود عرصہ کے لیے پل گئی ہوتو بڑی بات ہے۔اس کے علاوہ ہمیں یاد نہیں کہ کبھی کسی جانور کی پرورش ہمارے یہاں ہوئی ہو۔
ہوا یہ کہ ہمارے انگریز افسرکمپنی کی میعاد ختم کر کے اپنے وطن انگلینڈ واپس ہونے لگے تو اپنا عزیز ترین کتا بطور یاد گار ہمیں عنایت کر گئے۔ ٹامی سفید رنگ‘ چھوٹے قد اور لمبے لمبے بالوں والا بڑا پیارا اورخوبصورت کتا تھا۔جو کتے سے زیادہ کسی برفانی ریچھ کا بچہ معلوم ہوتا تھا۔سوچنے کی بات ہے کہ ایک مہذب قوم کے فرد یعنی ایک انگریز کے گھر پلا ہوا کتا کس معیار اور نوعیت کا رہا ہوگا مگر بیگم کی نا قدر شناسی اور سرد مہری کا کوئی علاج نہیں تھا کہ وہ بجائے ہمارے اس عزیز مہمان کا خو ش دلی سے سواگت کرتیں اُنہوں نے دور ہی سے لاحول ولا قوۃ کے نعرۂ ہائے ملامت سے اس کا استقبال کیا۔ہم چاہتے تو صاحب سے عذر کرسکتے تھے کہ جانوروں کی پرورش کے لئے ہمارے گھر کا ماحول بھی سازگار نہیں رہا ہے مگر چونکہ یہ تحفہ ایک ہر دلعزیز افسر کا تھا کچھ ُمروّت اور شائستگی کاتقاضا بھی لہٰذا ہم شکریہ ادا کر کے چلے آئے۔
اب گھر میں بچوں کا یہ حال کہ وہ سب کچھ بھول کرٹامی کی ناز برداری اور مزاج پُرسی میں لگے ہوئے ہیں مگر بیگم کا حال اس کے برعکس تھا۔اُنہوںنے آنگن کے بیچوں بیچ بھگوان رام کی طرح ایک لکیر کھینچ کر گویا چیلنج کیا کہ اگر اس مُوئے کتے نے یہ لکیر پار کرنے کی ہمت کی تو وہ اُسے جلا کر بھسم کر دیں گی۔
ہم نے سمجھایا ’’جناب!بے شک یہ ایک کتا ہے لیکن ہر گز کسی گلی محلے کا آوارہ یا خارش زدہ کتا نہیں ہے کہ اسے تختۂ دار پر چڑھا نے یاکالے پانی کی سزا
دینے کی سوچیں‘یہ ہمارے صاحب کے گھر نازوں میں پلا بڑھا نہایت شائستہ اور
مہذب کتا ہے‘یقین نہ ہوتو اس سے ملاقات کرکے دیکھ لیں۔بُرائی کیا ہے! دن کو
بچوں کا دل بہلایا کرے گا رات کو گھر کی رکھوالی۔‘‘
تیوری چڑھا کر بولیں’’ سب بے کار کی باتیں ہیں آپ اس نگوڑے انگریز کی صحبت میں رہ کر خود بھی انگریز بن گئے ہیں۔میں خوب جانتی ہوں کتا آخر کتا ہوتا ہے خواہ وہ کسی انگریز کے گھر پلا ہو یا ہمارے دھوبی کے گھر۔ اگر کسی دن کسی کو کاٹ کھائے تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیں گے۔ یہ امریکہ اورانگلینڈ تو ہے نہیں کہ عدالت میں مقدمہ ٹھونک کرنہال ہو جائیں‘‘۔
ہم نے سر پیٹ کر سمجھایا ۔’’جناب! یہ سراسر آپ کی زیادتی اور توہم پرستی ہے ۔بھلا یہ کوئی دیوانہ کتا ہے کہ کہ خواہ مخواہ کسی کو کاٹ کھائے۔ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ شریف اور شائستہ جانور ہے ‘بیوی نہیں کہ کاٹ کھائے‘‘۔
چمک کر بولیں’’ تو آپ صاف کیوں نہیں کہتے کہ میں آپ کو کاٹ کھاتی ہوں‘‘۔
ہم نے اُنہیں ٹھنڈا کرنے کی غرض سے بات بنائی’’بخدا ہمارا منشا ہرگز آپ کی توہین کرنے کا نہیں تھا۔ہم بس یہی کہنا چاہتے تھے کہ یہ کتا ضرور ہے مگر شریف اور اچھی نسل کا ہے کاٹے گا ہرگز نہیں۔‘‘
غرض بڑی بک جھک کے بعد اس بات پر راضی ہوئیں کہ وہ باہر ایک گوشے میں گیراج کے قریب بندھا رہے گا۔ گھر کے اندر قدم رکھنے کی ہمت نہیں کرے گا ورنہ اس کی ہڈی پسلی ٹوٹنے کی وہ ہرگز ذمہ دار نہیں ہوں گی۔
چنانچہ ہم نے اگلے دن گیراج کے بغل میں اینٹوں کا ایک عارضی گھر بنا کر اس کے قیام و طعام کا بندوبست کردیا ۔
ایک رات کوئی دو بجے کا عمل ہو گا ہم گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ بیگم نے جھنجھوڑ کر جگادیا’’وہ آپ کاکتا مسلسل بھونک رہا ہے ۔‘‘
ہم نے کان لگا کر سنا ۔واقعی وہ رہ رہ کر بھونکے جا رہا تھا مگر ہم نیند کے دباؤ میں تھے ٹالنے کو کہا’’بھونکنے دو‘بھونکنا تو اس کا پیدائشی حق ہے ‘وہ وقت گزاری کے لئے خواہ مخواہ بھونکتا ہے ‘لیکن ایک اور سبب بھی ہو سکتا ہے ممکن ہے اس وقت وہ تنہائی میں اپنی گرل فرینڈ کو یاد کر رہا ہو۔ساحرؔ نے اسی لئے کہا تھا ؎
یہ تنہائی کی تاریکی تو بڑھتی اور بھی ہمدم ۔غنیمت ہے کہ یادوں سے چراغاں کر لیا میں نے
فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہم انسانوں کی طرح اس کو بھی کسی کتیا سے عشق ضرور ہوگا ۔باالفاظ دگر اس نے بھی کسی گرل فرینڈ کو مار رکھا ہوگا جو اس
وقت تنہائی میں گویا اس کے پاس ہو گی بقول مومنؔ ؎
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا ۔جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ناک بھوؤں چڑھا کر بولیں ‘توبہ توبہ!یہ کتا نہ ہوا مجنوں ہو گیا۔
ہم نے کہا ’’مجنوں نہیں تو رانجھا ضرور ہو گا کوئی بھی روح کسی میں بھی حلول کر جائے تو تعجب نہیں۔ اس طرح ممکن ہے مجنوں یا رانجھے کی روح اس میں گھس آئی ہو اور وہ اپنے محبوب کی یاد میں کوئی شعر یا غزل یا دوغزلہ عرض کر رہا ہو‘‘۔
یہ سن کر وہ بے ساختہ ہنس پڑیں ۔اس وقت ان کا موڈ کچھ ایسا ہی خوش گوار تھا کہ ہم نے موقع غنیمت جان کر دبی زبان میں کہا،’’ٹامی ایسا کوئی خونخوار جانور ہرگز نہیں کہ اسے گھر کے باہر باندھ کر رکھا جا ئے ۔لہٰذا اسے گھر میں آنے جانے میں کیا قباحت ہے۔‘‘
تیوری چڑھا کر بولیں ’’یہ مت بھولیں کہ کتا شیطان ہوتا ہے جس گھر میں کتا ہو وہاںرحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔توبہ توبہ میں تو اسے ہاتھ بھی لگا نہیں پاؤں گی۔یہ کیا کم ہے کہ میں بچوں کی خاطراسے گھر میں رکھنے کو راضی ہوگئی تھی‘‘۔
ہم ہمت ہارنے والے نہ تھے۔کہا’’ذرا سوچیئے تو سہی!آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ایک عالی نسب کتے کی شان میں ایسے توہین آمیز الفاط آپ کو زیب نہیں دیتے۔جس کی ساری عمر ایک شاندار بنگلے کے سجے سجائے نرم نرم صوفوں اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے مالک اور مالکن کی نرم نرم آغوش میں گزری ہو اور نہایت خوشنما اور قیمتی قالین جس کے پاؤں کے بوسے لیتے رہے ہوں‘آپ ناقدری اور بے توجہی کے طفیل اس سے ایک خنجیر کا سا نفرت آمیز سلوک ہو‘‘۔
بولیں:’’اپنا اپنا خیال ہے۔آپ جس خنزیر کو قابلِ نفرت کہتے ہیں کیا اس خنزیر کے گوشت سے آپ کے لاٹ صاحب ساری عمر پلتے نہیں رہے ہیں؟اب مزید بحث وتکرار فضول سمجھ کر ہم نے کروٹ بدل لی اور سونے لگ گئے۔
کئی دن گزر گئے۔ایک رات کو دوبجے کا عمل ہوگاآنگن میں ٹامی کے بھونکنے کی آواز سن کر ہماری آنکھ کھل گئی ْاوّل تو ہم نے سوچا کہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر بھونک رہا ہوگا۔ مگر جب اس کے بھونکنے میں شدت رونما ہونے لگی تو اِدھر بیگم نے جھنجھوڑا ’’خدا غارت کرے صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے میں کل ہی اسے زہر دے دوں گی۔ خس کم جہاں پاک!‘‘
ہم لحاف پھینک کر اُٹھ کھڑے ہوئے ‘ہماری ساری توجہ ٹامی کے بھونکنے کی آوازوں پر مرکوز تھی ۔پھر کچھ سوچ کر ہم نے کونے میں رکھی بچوں کی ہاکی اسٹک اُٹھائی اور بیگم کے نہ نہ کرتے دروازہ کھول کر باہر آئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ٹامی کے گلے کی رسّی ٹوٹی ہوئی تھی اور وہ ایک انسانی سائے پر جھپٹ رہا تھا ۔سایہ اس سے بچاؤ کے لئے سارے آنگن میں دوڑتا پھر رہا تھا ۔ہم نے اسٹک سنبھال کر للکارا ’’کون ہے؟‘‘
ہماری آواز پر سایہ دیوار کی طرف لپکا اور دیوار پھاند کر نکل جانے کی کوشش کرنے لگا ‘یقینا وہ کوئی چور تھا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اس کمبخت کا اوپر کا آدھا دھڑ ہاتھوں کے سہارے دیوار سے چمٹا ہوا تھا اور نچلا دھڑ نیچے لٹک رہا تھا اور ٹامی تھا کہ اس کے پتلون کا ایک پائنچہ منہ میں دبائے جھول رہا تھا اور چور اس فکر میں تھا کہ پائنچہ چھڑا کر باہر کود جائے ۔لہٰذا وہ رہ رہ کر اُسے اس کی گرفت سے آزاد کرنے کے لئے جھٹکے دے رہا تھا مگر ٹامی ایسا سخت جان تھا کہ چور کے ہر جھٹکے پر دیوار سے ٹکراتا مگر پائنچہ نہ چھوڑ تا تھا۔ہم نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر آگے بڑھ کر اسٹک چور کے دوسرے پاؤں پر اس زور سے ماری کہ وہ چوٹ کی تاب نہ لاکر زمین پر گر پڑا ہم نے اُسے گریبان سے پکڑ کر اُٹھا یا وہ ایک ہٹا کٹا جوان تھا۔اس دوران میں شور سن کر دو چار پڑوسی بھی وہاں پہنچ گئے اور معاملہ جان کر اس کی مرمت شروع کردی۔ ہم نے بدقت اُسے چھڑایا تو وہ ہمارے پاؤں پر گر پڑا اور ہمارے سوال پر اس نے اپنے جیب سے سونے کا ایک ہار نکال کر ہماری طرف بڑھا دیا۔
’’بس یہی ایک چیز کھلی کھڑکی سے اٹھائی تھی۔ اب مجھے چھوڑ دیں ‘‘۔
مگر پڑوسیوں کی رائے تھی کہ اسے چھوڑ دینا اسے دوبارہ چوری کی ترغیب دینا ہے۔کافی بحث کے بعد صلاح ہوئی کہ وہ لوگ خود اسے قریبی تھانے میں پہنچا کر چلے جائیں گے۔چنانچہ ادھر وہ چور کو گھسیٹتے ہو ئے چلے گئے ادھر بیگم نے پشت سے ظاہر ہو کر ہمارے ہاتھوں سے ہار اُچک لیا۔ اگلے ہی لمحے حیرت کی ایک چیخ ان کے منہ سے نکل گئی۔ ’’ہائے اللہ! یہ تو میرا ہار ہے۔میں رات الماری میں رکھنے کی بجائے بھولے سے کھڑکی میں رکھ کر سو گئی تھی۔ہائے اسے موت آئے۔ مونڈی کاٹے کا‘‘۔
اب ہم ٹامی کی طرف متوجہ ہوئے جس کے پڑوسی گن گا رہے تھے‘جس نے اپنے مالک کے مفاد میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی تھی۔ وہ ایک طرف اپنا ایک پاؤں لنگڑاتا پھر رہا تھا۔ ہم نے اُس کی وفاداری پر جذبات سے مغلوب ہو کر اُسے گود میں اُٹھا لیا۔پشت سہلائی،چمکارا اور آہستہ سے زمین پر اُتار کر بچوں سے پانی اور پٹی منگوائی اور اس کے زخمی پیر پر باندھ دی ۔پھر سب بچے اس کی مزاج پُرسی اور ناز برداری میں لگ گئے ۔مگر بیگم تھیں کہ اپنا ہار ہاتھ میں لئے ایک طرف خاموش کھڑی ٹکٹکی لگائے ٹامی کو تکے جا رہی تھیں۔ دفعتاً وہ مڑیں اور اندر سے کیک کا بڑا ٹکڑا لا کر ٹامی کے آگے رکھ دیا ۔ان کے روئیں روئیں میں محبت پھوٹ رہی تھی مگر ٹامی۔۔۔۔۔!وہ سہم کر پیچھے ہٹ گیا وہ خاموش کھڑا اپنی خوف اور شک بھری آنکھوں سے بیگم کو تک رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو ؎
مجھ تک کب ان کی بزم میں آیا تھا دورِ جام ۔ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
پھر ہم نے مسحور و مبہوت ہو کر شفقت اور پیار سے اسے بے اختیار و بے پناہ جذبے کو دیکھا جو بیگم کے دل سے چشمے کی طرح پھوٹ پڑا تھا ۔وہ بے اختیار آگے بڑھیں اور اور جھک کر ٹامی کو اپنی آغوش میں دبوچ لیا جیسے وہ کوئی نجس کتا نہ ہو ان کا اپنا مُنّا ہو ، ان کی آنکھوں میں خوشی اور ندامت کے ملے جلے آنسو ٹمٹما رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment