Aurat Afsanan >Haneef Sayed - منیراحمدجامی

Post Top Ad

www.maqbooliya.com

Wednesday, March 25, 2020

Aurat Afsanan >Haneef Sayed

یوں توپروفیسر بھانو؛ ایسے نہ تھے ۔اوّل توعمر گزر چکی تھی، اُن کی،دوسرے پانچ بچّوں کے باپ بھی تھے وہ،اورسب سے بڑھ کریہ کہ ڈگری کالج کے پروفیسر کی حیثیت سے سماج میں ایک مقام تھا ،اُن کا۔اِس کے مدِّنظرایک جوان بِدھواسے عشق زیب نہیں دیتا تھا، اُن کو،لیکن وہ بھی کرتے کیا۔۔۔۔؟ جب رنجنا ہی پیچھے پڑگئی تھی، اُن کے۔
ہوایوں کہ رنجناجب اپنے بیٹے دیپوکے داخلے کے لیے کالج پہنچی اورپروفیسر بھانوکو دیکھتے ہی پہلے توجھجکی وہ،پھر چہرہ تمتمایا،پسیناآیا،ہاتھ پیرپھول گئے ،جسم تھرتھرا کرٹھنڈا پڑ گیا،دِل بے قابو ہوا،بڑی مشکل سے سنبھالاخود کو،اور پھر جانے اَن جانے جذبوں میں ڈوب کردیوانی سی ہوگئی وہ۔ویسے وہ تھی نہیں ایسی،پر جب سودا سمائے، توکیا کیا جائے ۔۔۔۔؟بھانونے بچنے کے لیے ہاتھ پیر تو بہت مارے،لیکن بچ نہ پائے ،بے چارے۔ 
لوگوں کوحیرت تھی تواس کی کہ جس رنجناکوبھری جوانی میں جب کوئی ہوانہ لگی تھی،جس کے ماتاپِتابچپن سے ہی بھگوان کو پیارے ہوگئے تھے، چاچی نے بہت دنوں تک چوکا باسن کے لالچ میں پکے پھل کوپال میں پڑارہنے دیا،اورجب اُن کی دکھتی رگ کوسماج نے پکڑکرجھنجوڑناشروع کیا،تولوک لاج کے کارن دہرادون کے ایک کالج کے چپراسی راموسے دھروناکرادیا،اُس کا۔دھرونے کے بعد اُس کے شباب میں شراب کاسانشہ کچھ کچھ گھلاہی تھاکہ رامودوماہ بعدایک پروفیسرکے ہاتھوں ماراگیا۔رنجناپاگل ہوگئی۔چاچی کی بن آئی، وہ چوکاباسن کے لیے پھرلے آئی۔آٹھ ماہ بعددیپوپیداہوا۔
رنجناہندستانی عورت تھی،جس نے پتی کوپرمیشورمان کراپناجیون راموکی یاد میں،دیپوکے سہارے گزارنے کاعہدکیاتھا ۔دیپوبہت پیاراتھا،اُس کے لیے۔خوب پڑھاتی لکھاتی تھی اُس کو۔ہروقت اپنے دیپوکے ساتھ رہتی تھی۔اپنے پتی کی جینتی بڑی لگن سے مناتی تھی وہ۔جینتی کے روزخوب بنتی سنورتی،دونوں ہاتھوں میں بھر بھر چوڑیاں، نئے نئے کپڑے پہنتی،ایک توتھی ہی خوب صورت، اُس پرسولہ سنگار،سیندور، بندی،بس دُلھن بن جاتی وہ،پھرآئینے کے سامنے کھڑی ہوتی،کہیں کچھ کمی ہوتی تو دور کر کے اپنے راموکی 

تصویر کے سامنے جاکھڑی ہوتی ،آنکھیں بندکرکے ۔پھراُس کاچہرہ بگڑ جاتا، خوب روتی، ساری چوڑیاں توڑدیتی، ہاتھ پٹک پٹک کر،لہولہان ہوجاتاساراجسم۔خوب تڑپتی، کلپتی۔ بین کرکرکے اپنے راموکے لیے روتی۔پڑوسی اُس کی بھری جوانی دیکھ کرشادی کی صلاح دیتے،لیکن وہ انکارکردیتی، سختی سے۔پڑوسی بھی زیادہ زور نہ دیتے،کیوں کہ اُس کی آنکھیں چارہوتے کبھی نہ دیکھاتھاکسی نے۔تلسی کی پوجا کرتے کرتے بال سفید ہونے لگے تھے، اُس کے۔
اَب دیپوبھی بڑاہوگیاتھا۔اُس کے انٹرمیڈیٹ کرلینے کے بعدہی تووہ کالج گئی تھی، اُس کے ساتھ۔بس اُسی وقت تولوک لاج کوطاق میں رکھ کربھانوسے تعلق ہوگیا تھا،اُس کا۔بھانوبھی نئے نئے آئے تھے، کہیں باہرسے ،نوکری چھوڑکر،کسی رنجش کے باعث۔رنجنا جب اُن پرمرمٹی توپہلے پہل کترائے وہ۔لیکن رنجناجب اپنے عشق کاسیلاب لیے آگے بڑھی توبھانوبھی بچ نہ پائے،بس ڈوب گئے بھنورمیں،پوری طرح۔آخرپتھرکب تک محفوظ رہتا،رسّی سے۔ایک نہ ایک دن تونشان پڑناہی تھا،پتھّرپر۔رسّی دھیرے دھیرے اپناکام کرتی رہی اورنشان گہراہوتاگیا۔بہ ہرحال رنجنابھی بڑی حدتک بدنام ہوگئی، سماج میں۔صرف چاچا چاچی اورمحلّے والے ہی نہیں،دیپوبھی نفرت کرنے لگا،اُس سے۔ لیکن اپنے دلی معاملے کی مداخلت میںکسی سے بھی سمجھوتا منظورنہ تھا،اُس کو۔اُس نے جوانی صرف ایک بارملنے اوراُس کوبے باکی سے انجوائے کرنے کامُن￿ہ توڑجواب دیاتھا،سماج کو۔اُس کے خیال میں سماج ستارکاتارہے ،چھیڑوتوآوازگونجتی ہے،نہ چھیڑوتوکوئی آواز نہیں،یا پھرایک اژدہاہے سماج۔شری کرشن کی طرح ناتھ لو،اُس کو،یعنی کہ پیررکھ کرکھڑے ہوجائواُس پر،توقابو میں، ورنہ توزہرہی زہرہے زندگی۔یعنی کہ موت۔
رنجنا،اَب بھانوکے ساتھ بازاروںاورسنیماگھروں میں اکثردیکھی جاتی ۔کوئی کچھ بھی نہ کہتا،اُس کو۔مگردیپواحساس کرتا، وہ خوب خوب کڑھتا، اندرہی اندر۔وہ بھی دیپو کی نظرسمجھ لیتی ،دیپوسے کہیں زیادہ اُداس ہوجاتی، وہ۔مگر ڈَٹی، رہتی مستقل مزاجی سے۔ اُس نے اَب بھانوکواپنے یہاں بلانابھی شروع کردیاتھا۔وہ اُن کی تواضع میں کوئی کمی نہ رکھتی،لیکن یہ اُس کے عشق کی معراج تھی کہ اُس نے اَب تک بھانوکاایک پیسابھی نہ خرچ ہونے دیاتھا،خودپر۔
چاچاچاچی بھی ایک ایک کرکے پیارے ہوگئے تھے، بھگوان کو۔مکان اور کاشت کی واحدوارث صرف وہی رہ گئی تھی ۔اب تو خوب خوب نازنخرے اُٹھائے جاتے تھے،بھانوکے۔ بھانونے بھی پوری طرح نظراندا زکردیاتھاسماج کو،اُس کے عشق میں۔ لیکن اُن کا ہاتھ اُس کے دامن تک نہ پہنچ سکاتھا،اَبھی تک۔حالاں کہ کوشش بہت کی تھی، اُنھوں نے۔لیکن وہ تھی کہ ہاتھ نہ آرہی تھی، اوردوربھی نہ جاپارہی تھی ،اُن سے۔اِسی بات کولے کربھانوکئی بار روٹھ بھی چکے تھے ،اُس سے۔لیکن وہ تھی کہ بڑی خوبی کے ساتھ اپنے آنسوئوں کے سیلاب میں بہالائی تھی ،اُن کو۔
دسہرے کی تعطیل نے اُن کے عشق میں اورچارچاندلگادِیے ،بھانومیلاگھومنے کے بعداُس کی ضدپراُس کے گھرآجاتے ،پھرتو پہروں باتیں ہوتیں۔دونوں نے اپنے اپنے کانٹوں میںلذیذچارے پرورکھے تھے۔لیکن نٹ کھٹ مچھلیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ نہ لگنے کی مانوقسم کھارکھی تھی۔شایدکسی خاص وقت کے منتظرتھے، وہ دونوں۔
دیپوسب سمجھ رہاتھا،اُس کے غصّے کاباندھ پھٹنے ہی والاتھا۔کئی روزسے کھانا پیناتک چھوڑدیاتھا،اُس نے۔لیکن رنجناکا عشق بِناپتوارکی کشتی کی طرح بہتاہی چلاجا رہا تھا۔مگربھانونے چڑیا،پنجرے میں نہ آنے کی صورت میں پنجراتوڑپھینکنے کاتہیّہ کر لیاتھا۔ حالات سازگاردیکھ کررنجنانے ہتیارڈال دِیے تھے۔اوراگلے روزدیپوکوکسی کام میں اُلجھا کر اُن کے ساتھ رات گزارنے کاوعدہ بھی کرلیا ۔
رنجنا،بچپن ہی سے بڑی وقت شناس تھی۔حالات نے اُس کومزیدپُختہ اور سنجیدہ بنادیا۔اِس کے باوجوددیپوکوبہلانااورسمجھانااُس کے بس کانہ تھا۔کئی باردیپونے اُس سے نظربگاڑکربات بھی کی،لیکن اُس نے دودھ کے نیچے آنچ تیزکرنامناسب نہ سمجھا۔ اُدھر دیپو نے بھی اپنے پروفیسربھانوسے کوئی تلخ بات نہ کی کیوں کہ وقت شناس ماںکابیٹا ہونے کے ناتے اپنے مستقبل پرپوری نظرتھی، اُس کی ۔لیکن دودھ کب تک آنچ سہتا۔اُپھان توآناہی تھا،ایک نہ ایک دن ایسی آنچ میں۔لیکن جب بھی اُپھان آتا،اُس میں۔وقت شناس ماں؛ کبھی آنچ کم کردیتی توکبھی پانی ڈال دیتی ،دودھ میں۔لیکن آج اُس کی سمجھ میں نہ آرہا تھاکہ وہ دیپوکوسمجھائے بھی توکس طرح۔سانپ کو مارلینے اورلاٹھی کوثابت رکھنے کی قائل تھی وہ۔ آخراُس نے ترکیب نکال ہی لی ،رات بھرکروٹیں بدل بدل کر۔
’’چل اُٹھ۔‘‘صبح ہوتے ہی وہ دیپوپربرس پڑی۔دیپوگھبراکراُٹھااورماں کوعجب اندازسے گھورنے لگا۔
’’گھورتاکیاہے،شرم نہیں آتی، تجھ کو۔۔۔۔؟سانڈجیساجسم،کمائی نہ دھمائی کا۔ مجھ  سے گھرنہیں چلتااَب۔پڑھنالکھناچھوڑ۔۔۔! اَب کمانے کی فکرکر،کمانے کی۔دانہ نہیں رہا گھر میں۔سارازیورپڑاہے گروی۔سات ہزارکانوٹس آیاہے سُنارکے یہاں سے۔آج ہی ادا کرنا ہے۔ورنہ سارے زیورات ضبط۔‘‘ماں نے طیش دکھایا۔
’’کیا بکتی ہے ۔۔۔؟ماں۔۔!‘‘دیپو؛بن بادل برسات ماں کا غصّہ دیکھ کرغرّایا اوروہ سہم گئی،دودھ کااُپھان دیکھ کر۔
’’بکتی ہوں۔۔۔۔؟مَی￿ں نے تجھ سے ایک اکچھرنہیں بولا،آج تک۔اَب پانی سر سے اُونچاہوتاجارہاہے،مجھ کو اپنے گھر کے حالات سدھارنے کے لیے ہرحالت میں سات ہزار روپے چاہیے، آج شام تک۔‘‘ماں آخر ماں تھی، وقت شناس ماں،اُس نے دودھ کے لحاظ سے برتن بڑارکھ دیا،آنچ پر۔دودھ میںاُپھان آیا، لیکن برتن کے حصارسے باہرنہ نکل سکا۔
’’بیٹا۔۔۔۔!مَی￿ںجانتی ہوںکہ یہ سب سُن کردہل گیا،تو۔اوریہ بھی جانتی ہوں کہ سات ہزارکاانتظام کرنا،وہ بھی شام تک ،غیر ممکن ہے آج،پرنکال کوئی ترکیب۔‘‘دودھ جب جلنے لگااندرہی اندرتووقت شناس ماں نے آنچ کم کردی۔
’’کیاترکیب نکالوں۔۔۔۔؟‘‘
’’کچھ بھی۔‘‘
’’کچھ بھی کیا۔۔۔۔؟‘‘
’’کرنا توپڑے گاہی ،کچھ نہ کچھ۔ورنہ ضبط ہوجائیں گے، زیورات۔‘‘ماں نے گھر کے حالات کا سہرا بیٹے کے سر باندھ کر التجا کا دامن دراز کر دیا۔
’’پریہ توبتا۔۔۔۔! کروں کیا مَیں۔۔۔۔؟‘‘
’’سات ہزارکاانتظام۔‘‘
’’میرے بس کانہیں۔‘‘
’’ہے تیرے بس کا۔‘‘رنجنانے دیپوکواپنے حصارمیں پوری طرح قیدکرلیاتھا، اوراَب وہ اُس کواپنی مرضی کے مطابق رُخ دیناچاہتی تھی۔
’’وہ کیسے۔۔۔۔؟‘‘دیپو نے دریافت کیا۔
’’تو کرسکتا ہے انتظام سات ہزار کا۔ ‘‘
’’اَب بتا نا کہ کیسے انتظام ہو،سات ہزارکا۔؟‘‘ماں سے پھرسوال کیا،اُس نے۔
’’پڑوسی کی جیپ لے جا،آنکھ بچاکراورکان پورسے نوٹ پکّے کرلا۔‘‘رنجنا نے بڑی ہمّت کرکے مُنہ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’کیا کہا۔۔۔۔؟ہوش میں توہو،ماں ۔۔۔۔۔؟‘‘دیپوطیش کھاکرکھڑاہوگیا۔
’’اِس سے بہتراورکوئی راستہ نہیں ،اِس وقت۔‘‘رنجنا نے دیپو کا طیش دیکھ کر نرم لہجے میں حالات کی جھولی پھیلا دی۔
’’یہ نہیں کرسکتامَی￿ں۔‘‘
’’کرناتوہوگاہی۔‘‘رنجناکی آواز،دیپوکی آوازپربھاری پڑگئی۔
’’کیاکرناہوگااورکیانہیں،یہ اچھی طرح جانتاہوںمَی￿ں۔‘‘دیپونے
اِدھراُدھر کا جائزہ لیا،اورایک کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بندکرلیا۔
’’دیپو۔۔۔۔!ہوش میں توہے۔۔۔؟ تو۔۔!‘‘وقت شناس ماں نے دبی آواز میںکواڑ تیزی سے ہلاڈالے۔
’’مجھ کوہوش کے لیے چھوڑاہی کہاں، تونے۔۔۔۔؟‘‘
’’توسمجھانہیں میری بات۔کھول توسہی، مَیںسب سمجھادوں گی تجھ کو۔‘‘ماں نے حالات کے تحت اپنے سارے ہتیار ڈال دیے۔
’’تم اَب اُس پروفیسرکوسمجھائو۔‘‘
’’ہاں ہاں وہی سمجھائوں گی ،سب کچھ تجھ کو۔پہلے کھول تو،تٗوکواڑ۔۔۔!وہ تیرے پِتاکاقاتل ہے،میں بدلہ لیناچاہتی ہوں ،اُس سے،تیرے پِتا کا،یہ ڈراماہے سب، تو سمجھتا کیوں نہیں۔۔۔۔؟‘‘ماں پانی کی طرح اُبلتے دودھ پربرس پڑی۔دودھ کااُپھان فوراًبیٹھ گیا۔ دیپونے کواڑکھول دِیے،ماں نے لپک کرگلے لگالیا،اُس کو۔اورسانسوں پرقابوپاتے ہوئے اُس کاسرسہلانے لگی۔
’’پروفیسر؛قاتل ہے، پِتاجی کا۔۔۔۔؟‘‘دیپونے سانسوں پرقابوپاتے ہوئے ماں سے دریافت کیا۔  
’’ہاں بیٹا ،ہاں۔۔۔۔!آج رات اُس کوقتل کرناہے ہرحالت میں،مَی￿ں چاہتی ہوں کہ توحوالات چلاجا،تاکہ کوئی الزام نہ آئے ،تجھ پر۔‘‘
’’اَب تومَی￿ںماروں گا،حرام زادے کو۔‘‘دودھ نے پھرزورمارا۔
’’نہیں بیٹے ۔۔۔۔!یہ آگ تو میرے سینے میں دہک رہی ہے۔‘‘رنجنا نے دیپو کے سامنے اپنے غموں کا پٹارا کھول دیا۔
’’نہیں ماں۔۔۔۔!اَب تو مَیں کروں گایہ کام۔‘‘دیپوایک جوش کے ساتھ ماں کی گرفت سے آزادہوگیا۔
’’اچھا۔۔۔۔!لیکن ترکیب سے۔‘‘وقت شناس ماں نے پھرآنچ کم کردی۔
’’وہ کیا۔۔۔۔؟‘‘
’’آج شام تم چُھپ جانا،مَیںتمھارے میلا جانے کابہاناکردوں گی اس سے،اوراس کے سوجانے پرتم اُس کا پہلی ہی نیندمیں کام تمام کردینا،لے یہ چاقو روک۔۔۔۔!‘‘رنجنا نے اپنی کمرسے وہ چاقونکال کر دیپوکے سپردکرتے ہوئے کہاجس کورنجنا کئی روزسے پتّھرپرگھِس گھِس کر تیزکررہی تھی۔ 
رنجنا نے گھرکے ضروری کاموں سے فراغت کے بعدبناوسِنگارکرکے خود کو دُلھن جیسابنالیا۔بھانو،آج شام حسب ِوعدہ دس بجے سے سات آٹھ منٹ پہلے ہی آدھمکے۔پھر منصوبے کے مطابق دیپوایک کمرے میں چھُپ گیا، اوررنجنانے بھانو کو ڈرائنگ روم میں لا بٹھایا۔
’’کہاں ہے، دیپو۔۔؟‘‘رنجناکے بناوسِنگارکودیکھ کربھانوآپے سے باہرہوگئے۔
’’بس میلاجانے کی تیاری میں ہے۔‘‘رنجنا نے بھانوکوبتایا۔
’’جلدی بھیجو۔۔۔۔!‘‘بھانوتڑپے۔
’’بس اَبھی بھیجتی ہوں،جب تک کھاناکھائیں،آپ۔‘‘رنجنا نے بڑے سلیقے سے بھانوکوکھاناکھلایااورٹی ۔وی آن کرکے،دیپو کوجلدمیلابھیجنے کے بہانے کمرے سے باہرآگئی،اوربھانوفلمی دھنوں میں کھوگئے۔انتظارکاایک ایک پل اُن کوباربار کروٹیں بدلنے کے لیے مجبورکرنے لگا۔
’’لاچاقو۔!اورتیزکردوں،ایک ہی وارمیں کام ہوجائے، حرام زادے کا۔دِل پر لگے سیدھا،تب بات ہے۔‘‘رنجنانے دیپو کے کمرے میں پہنچ کردھیمی آوازمیں چاقو طلب کیا،اورچاقو لے کربڑے اطمینان سے راموکی تصویرکے سامنے کھڑی ہوگئی۔اُس نے اپنے پتی کی تصویرکوپہلے خوب دیکھا،پھرآنکھوں کے ذریعے دِل میں اُتارکرآنکھیں بندکرلیں۔
’’ہے بھگوان۔۔۔۔!تمھارے بِنایہ جیون پہاڑہے، کانٹوں کا۔کاٹے نہیں کٹتا۔‘‘ اُس نے اپنی آنکھوں سے ڈھلکے ہوئے آنسو صاف کیے۔
’’ہے بھگوان۔۔۔! مجھے شکتی دو۔۔۔۔!تاکہ میں بدلہ لے کرتمھاری آتماکوشانتی دے سکوں۔‘‘ایک جوش کے ساتھ اُس نے آنکھیںکھولیں اوربھانوکے کمرے میں داخل ہوگئی، بھانونیم غنودگی میں تھے۔رنجنانے اندرداخل ہوکردروازہ اندر سے بندکرلیا،دیپوحالات کے تحت تیزی سے لپکا۔دروازہ بندپاکراُس نے کھڑکی سے جائزہ لیا۔رنجنانے دیپوکو خاموش رہنے کااِشارہ کیااوردیپوپنجرے کے پنچھی کی طرح پھڑپھڑا کررہ گیا۔
رنجنانے دھڑکتے دِل پرقابو پاتے ہوئے لمبی سانس کھینچ کر چاقو اوپر اٹھایا‘
ایک پل رکی،اوراپنے سینے میں اُتارلیا۔رنجنا کی چیخ سن کردیپونے چیختے ہوئے کواڑ ہلاڈالے۔ بھانونے اُچھل کردروازہ کھول دیا۔ 
’’ماں ۔۔۔۔!یہ کیاکیا،تونے۔۔۔۔؟‘‘دیپواندرداخل ہوکرچیخ پڑا۔
’’سترہ سال بہت دکھ جھیلے مَیں نے، تیرے باپوکے بغیر،اَب تاب نہیں مجھ میں،مَیں نہیں چاہتی کہ کوئی دوسری عورت میری طرح دکھ جھیلے۔‘‘یہ کہتے ہوئے رنجنانے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بندکرلیں۔٭٭٭

حنیف سید


No comments:

Post a Comment

WafaSoft Android Apps

Post Top Ad

https://play.google.com/store/apps/dev?id=6299642825467641012"